پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ کیوں کیا جائے

تعریف و توصیف اس اللہ تبارک و تعالیٰ کی جو رب العالمین ہے ۔ ہم اس ہی کی پرستش کرتے ہیں اور اس ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارے پاک پیغمبر حضرت محمدﷺ نے کچھ انسانیت کی اصلاح و فلاح کے لیے کیا ہم اس کی تصدیق جو توقیر کرتے ہوئے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

۲۔ ’’رب تعالیٰ جل شانہ، کے پیغبر ‘‘ کا تصور مختلف ممالک، اقوام اور ادوار کے حوالے سے مختلف ہو سکتا ہے ۔ اسلام میں انسان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل ہے ۔ جب کہ رب تعالیٰ جل شانہ ، کے پیغمبر، انسانوں میں سب سے زیادہ اشرف و افضل اور کامل و اکمل ہیں۔ یقینی طور پر یہ بات انسانیت کے بہتر پہلوئوں کے تحت ہی سمجھی جا سکتی ہے۔

۳۔ انسانی زندگی دو عظیم شعبوں میں تقسیم ہے ۔ ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے ۔ ان دونوں شعبوں میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرنے کے لیے ایسی حیاتِ مبارکہ کی عملی مثال دینا ہوگی جو فانی انسانوں کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی نمونہ ہو۔

۴۔ تاریخ نے ایسے لا تعداد بادشاہوں، دانشوروں ولیوں اور دوسرے ممتاز راہنمائوں کا ریکارڈ پیش کیاہے جن کی زندگیاں ہمارے لیے بہترین قابل عمل مثالیں ہیں۔ پھر آخر حضرت محمدﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کیوں کیا جائے جو کہ دوسے انسانوں کی طرح ۱۴۰۰ سال قل اس دار فانی سے کوچ فرما گئے اور اس دوران سائنس کی قابل قدر ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے حالات اور زندگی کے بارے میں ہمارے نظریات میں ٹھوس تبدیلیاں آ چکی ہیں؟

۵۔ایک مسلمان کے لیے اس کا جوا ب انتہائی سادہ ہے کہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے رہبر و رہنما حضرت محمدﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی نہ کرے لیکن وہ افراد جو ابھی تک نبیﷺ کی سیرت (سوانح حیات) کی تفصیلات سے آگاہ و آشنانہیں ہیں ان کے لیے چند حقائق کی یاد دہانی اہمیت کی حامل ہے ۔

الف) محمدﷺ کی تعلیمات آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی نگرانی میں انتہائی قابل اعتماد انداز میں محفوظ کرنے کی خاطر تحریر میں لائی گئیں۔ دوسرے مختلف بڑے مذاہب کے بانیوں میں سے صرف محمدﷺ کی ذات پاک نے خوش بخت نظریہ کے تحت وقتاً فوقتاً رب تعالیٰ جل شانہ، کی جانب سے وحی اور حکامات کو نہ صرف اپنی امت کے افراد تک پہنچایا بلکہ اپنے کاتبوں کو لکھوایا اور یہ کہ اس کے کئی نسخے اپنے پیرو کاروں تک پہچانے کا محتاط و محفوظ انتظام فرمایا۔ جہاں تک آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے تحفظ کا تعلق ہے یہ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بن گیا کہ وہ رب تعالیٰ جل شانہ کی جانب سے نازل ہونے والے کلام کے مختلف حصوں(اقتباسات) کو اپنی نمازوں میں تلاوت کریں۔ اس طرح اس متبرک کلام کا زبانی یاد کرنا لازم ہو گیا۔ یہ روایت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رہی کہ رب کائنات کے کلام قرآن الحکیم کے تحریر شدہ نسخے محفوظ رکھے جائیں دوسرا یہ کہ انہیں زبانی حفظ کیا جائے۔ یہ دونوں طریقے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام کی اس کی اصلی زبان میں مستند و معتبر ترسیل و تشہیر میں ایک دوسرے کے مدد گار ثابت ہوئے۔ قرآن الحکیم اپنے مواد کے اعتبار سے ’’عہد نامہ قدیم‘‘ کی پہلی پانچ کتابوں مع’’ عہد نامہ جدید‘‘ کی پہلی چار کتابوںسے بھی زیادہ ضخیم ہے ۔ چنانچہ اس امر میں حیرت و حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ قرآن الحکیم میں تمام شعبہ ہائے حیات کے بارے میں ہدایات موجود ہیں۔

ب) پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ، رب تعالیٰ جل شانہ، کے نبی اور رسول کا اعزاز حاصل کرنے پر اپنی اجارہ داری کا اعلان نہیں فرماتے بلکہ اس کے برعکس آپؐ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپؐ سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام قوموں کے لیے پیغمبر بھیجے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے چند کے نام بھی لیے ہیں جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام ، حضرت نوح علیہ السلا، حضرت ادریس علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ جن پیغمبروں کے آپؐ نے نام لیے ہیں ان کے علاوہ اور بھی کئی پیغمبر ہیں۔ آپؐ محض یہ دعویٰ فرماتے ہیںکہ آپؐ حقانیت و وحدانیت کی بحالی کا کردار ادا کرنے آئے ہیں۔ آپؐ سابقہ پیغمبروں کی تعلیمات کا احیاء چاہتے ہیں جو کہ حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا کے جانشینوں کی بد قسمت تاریخ کے دوران جنگوں اور انقلابات کے ذریعے بے قدری و تنزلی کا شکار ہوئیں۔ محمدﷺ کی خوش قسمت و مقدس یا دداشت کی بہت مضبوط و مستحکم اور غیر مصالحانہ تو ثیق و تصدیق یہ رہی کہ رب تعالیٰ جل شانہ، کے کلام کی ترسیل و ابلاغ آپؐ کے بعد بھی بر قرار رہی جس سے رب تعالیٰ جل شانہ، کی طرف سے مزید پیغمبر بھیجنے کی ضرورت نہ رہی۔ یقینی طور پر ہمارے پاس القرآن الحکیم اور الحدیث اپنی اصل زبان میں محفوظ ہیں۔

ج) نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ اپنے مشن کے پہلے ہی روز سے تمام دنیا سے مخاطب ہوئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کسی ایک قوم یا کسی زمانے تک محدود نہیں رہے ۔ آپؐ نے رنگ ونسل اور سماجی و معاشرتی درجہ بندیوں کی غیر مساوی تقسیم کو تسلیم نہیں کیا۔ اسلام میں تمام انسان مکمل طور پر برابر ہیں اور ذاتی برتری کی بنیاد نیک اعمال و افعال پر ہے۔

د) انسانی معاشرے میں مکمل طور پر اچھے اور مکمل طور پر برے انسان شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں۔ اکثریت کا تعلق متوسط درجے سے ہوتا ہے ۔ حضرت محمدﷺ نے یہ سمجھ کر اطمینان حاصل نہیں کیا کہ آپؐ انسانوں میں سے ’’فرشتوں‘‘ سے مخاطب ہیں بلکہ آپؐ نے اپنے پیغام کا رخ بنیادی طور پر عام لوگوں اور فانی انسانوں کی بہت زیادہ اکثریت کی جانب رکھا۔ قرآن الحکیم کے الفاظ میں انسان کو ’’ اس دنیا کے اچھے حصے اور آخرت کے اچھے حصے‘‘ کے حصول کے لیے کوشش و کاوش کرنی چاہے۔

ہ) انسانی معاشرے میں عظیم سلاطین ، عظیم فاتحین ، عظیم مصلحین اور عظیم متقین کی کمی نہیں لیکن زیادہ تر افراد اپنے متعلقہ شعبے ہی میں مہارت اور قدرو قیمت رکھتے ہیں۔ ان تمام اوصاف کا تمام پہلوئوں کے حوالے سے اجتماع صرف ایک ہی شخص میں ہونا۔ جیساکہ سرور کائنات حضرت محمدﷺ کی شخصیت میں ہے ۔ نہ صرف بہت ہی نایاب و کمیاب ہوتا ہے بلکہ وہاںہوتا ہے جب معلم کو اپنی تعلیمات کو بذات خود عملی شکل دینے کا موقع ملتا ہے یعنی جب تدریس و تجربہ میں توازن پیدا ہوتا ہے ۔

و) اتنا کہنا کافی ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ ایک مصلح کی حیثیت سے ایک مذہب کے بانی ہیںجو دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے جس کا ہمیشہ شاندارو جاندار و جود رہا ہے جس کا نقصان اس کے روزانہ کے فوائد و ثمرات کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اپنے ہی بتائے گئے اصول و ضوابط پر انتہائی ریاضت و استقامت کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے حوالے سے رحمتہ للعالمین حضرت محمدﷺ کی حیات طیبہ بے داغ ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک سماجی و معاشرتی منتظم کی حیثیت سے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے ایسے ملک میں صفر سے سفر آغاز کیا جہاں ہر ایک شخص ہر دوسرے شخص سے بر سر پیکار تھا۔ سرور کونین حضرت محمدﷺ کو ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھنے میں دس سال لگے جو ۳۰ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کے علاقے پر پھیلی ہوئی تھی اور جس میں تمام جزیرہ نمائے عرب کے ساتھ ساتھ فلسطین اور جنوبی عراق کے علاقے تھے۔ آپؐ نے اتنی بڑی سلطنت کو اپنے جانشینوں کے لیے ورثہ میں چھوڑا جنہوں نے آپؐ کے بعد پندرہ سال کے عرصہ میں اسے یورپ ، افریقہ اور ایشیا کے تین براعظموں تک وسعت دے دی (طبری ، جلد اول صفحہ ۲۸۱۷)فاتح کی حیثیت سے آپؐ کی جنگی و عسکری مہمات میں دنوں جانب سے انسانی جانوں کے ضیاع کی کل تعداد چند سو افراد سے زیادہ نہیں ہے لیکن ان علاقوں کی رعایا میں آپؐ کی اطاعت کا مل و اکمل تھی۔ در حقیقت رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ نے جسموں کی بجائے دلوں پر حکمرانی کی ۔ جہاں تک آپؐ کی حیات مبارکہ میں ہی آپؐ کے مشن کی کامیابی و کامرانی کا تعلق ہے مکہ مکرمہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے ڈیڑھ لاکھ پیروکاروں کے اجتماع سے خطاب کیا جب کہ ابھی تک مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد اس تاریخی موقع پر لازماً اپنے اپنے گھروں میں رہی ہو گی(کیونکہ ہر سال حج کرنا فرض نہیں ہے ۔)

ز) پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے جو قوانین اپنے پیروکاروں کے لیے لاگو کیے اپنے آپ کو کبھی بھی ان قوانین سے بالاتر نہیں سمجھا بلکہ اس کے برعکس جس قدر آپؐ کے پیروکاروں سے عمل کی توقع ہو سکتی تھی آپؐ نے ان سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کی ، روزنے رکھے اور رب تعالیٰ جل شانہ ، کی راہ میں خیرات کی ۔ آپؐ انصاف پسند تھے حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ نرمی و ہمدردی سے پیش آتے تھے چاہے وہ امن کا زمانہ ہویا جنگ کا دور ہو۔

ح) آپؐ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کرتی ہیں یعنی عقائد ، روحانی عبادات ، اخلاقیات، معاشیات ، سیاست الغرض وہ تمام کچھ جس کاتعلق انسان کی انفرادی یا اجتماعی ، روحانی و مادی زندگی سے ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپؐ نے ان تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فعل و عمل کی مثال چھوڑی ہے ۔

۶۔ چنانچہ کسی بھی فرد کو آپؐ کی حیات طیبہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ وہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے ۔

(بحوالہ: فرانسیسی زبان میں شائع ہونے والی عالمی شہریت یافتہ کتاب’’پیغمبر اسلام‘‘ سے انتخاب)

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.