ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات۔۔پوشیدہ تری خاک میں — از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات​

ہم ہوٹل اکادیمیہ کے کمرہ نمبر 5 میں بالکل تیار اور منتظر بیٹھے تھے۔ 5 بج کر چالیس منٹ پر مغرب کے کچھ ہی دیر بعد ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔محبت اور احترام و اشتیاق کی(سے) نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی ، اوور کوٹ ، مفلر ، جناح کیپ سے مماثل سیاہ ٹوپی ، داڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ۔ ایک مایہ ناز شخصیت اور قابل فخر انسان ، جس کی ساری زندگی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہی اور جو بایں پیرانہ سالی آج بھیجوانوں کی طرح ، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرم عمل ہے۔​
علیک سلیک ہوئی۔ چند خیر مقدمی جملوں کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ زحمت کرکے یہاں پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب ثقل سماعت کے سبب اونچا سنتے ہیں ، مگر گفتگو آہستہ آہستہ اور دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔​
خیر خیریت اور احوال پرسی کے بعد ،ہمارے استفسارات پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا :​
“چالیس سال سے یہاں ہوں۔۔۔ میری شہریت فرانس کی نہیں ، حیدر آباد کی بھی نہیں ، بے وطن ہوں ۔ میرے پاس کسی ملک کا پاسپورٹ نہیں ۔ بس ٹریولنگ پیپرز ہیں ، جو فرانسیسی حکومت نے دئیے ہیں ، ان پر سفر کرتا ہوں”​

سوال:فرانس کی شہریت کے لئے آپ نے کبھی مطالبہ نہیں کیا؟
جواب: نہیں ، معلوم نہیں کیوں؟ لیکن بہرحال کبھی نہیں کیا۔
فرانس میں اسلام اور نومسلموں کا ذکر چل نکلا۔ کہنے لگے ” جی ہاں ، بلا مبالغہ میرے ہاتھ پر سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا۔ ان میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ طلبہ ، پروفیسر ، عالم فاضل لوگ ، کچھ سفیر بھی ، نانبائی بھی اور اگر آپ یقین کریں تو پیرس میں بعض پادری اور نن بھی مسلمان ہوئے ہیں۔الحمد للہ ۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمارے مسلمان ہونے کا اعلان نہ کیا جائے اور اگر ضرورت ہو تو بلا اجازت ہمارا نام نہ دیں۔
مرزا صاحب: کیا ان کے بچے بھی مسلمان ہو جاتے ہیں؟
جواب: جی ہاں ، ان کا ” فور نیم” بھی ہوتا ہے ، جو اسلامی ہوتا ہے یعنی عبد اللہ ، عبد الرحیم وغیرہ ، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ ویسے میں کہتا ہوں کہ بچے ماں باپ کے نگران نقال مقلد ہوتے ہیں ۔ اگر ماں باپ اسلام پر عمل کرتے ہیں تو بچے از خود تقلید کرتے ہیں ۔ ان کے بہکنے کا امکان کم ہوتا ہے ، لیکن اگر ماں باپ خود عمل نہ کرتے ہوں اور چاہیں کہ بچے اولیاء اللہ بن جائیں تو ۔۔۔۔
کیا آپ کبھی علامہ اقبال سے بھی ملے ؟
ڈاکٹر حمید اللہ: پہلی بار لاہور آیا تو اقبال زندہ تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ حالت یہ تھی کہ وہ لیٹے رہتے تھے۔ نئے ملاقاتی آتے۔ سلام کرتے ، کچھ دیر بعد چلے جاتے۔ اجازت کا کوئی سوال نہ تھا۔ دربار عام تھا۔ اسی طرح میں بھی ایک دوست کے ساتھ ان کے ہاں گیا۔
پروفیسر محمد منور: ڈاکٹر صاحب یہ کون سے سن کی بات ہے؟ 37 ء کی بات ہوگی؟
ڈاکٹر حمید اللہ: بہت پرانی بات ہے۔ 1932 ء کی بات ہوگی۔ اس وقت صحیح طور پر یاد نہیں
پروفیسر محمد منور: ان سے کوئی بات ہوئی؟
ڈاکٹر حمید اللہ: بس مختصر سی ، میں نے کہا : مجھے قانون میں دلچسپی ہے ، فیکلٹی آف لا کا طالب علم ہوں تو کہنے لگے : یہ بڑی اہم چیز ہے ، اس میں تلاش اور کوشش جاری رکھو۔ اس وقت ان کے پاس کچھ اور دوست اور رفیق بھی موجود تھے۔ منشی طاہر دین بھی تھے-
اسی زمانے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا۔ گفتگو میں اس کا ذکر بھی آیا۔ راقم نے پو چھا:
ڈاکٹر صاحب ، یہ ترجمہ آپ نے خود کیا یا فرمائش پر؟
ڈاکٹر حمید اللہ : فرمائش نہیں ، بلکہ مجھے خود خواہش تھی۔ میں نے ترجمہ کیا ۔ اجازت لی
پروفیسر محمد منور : جگن ناتھ آزاد بھی قرطبہ آئے ہوئے تھے ، وہیں انہوں نے بتایا کہ میری نعت کا ترجمہ ڈاکٹر حمید اللہ نے فرانسیسی میں کیا ہے
ڈاکٹر حمید اللہ: جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں ان کی نظم مجھے پسند آئی۔
(پوشیدہ تری خاک میں — از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)

 

You might also like
1 Comment
  1. Usman Wajahat says

    Allah ka banda tha…Allah darajat buland farmay…un ki shakhsiyat kay baray main jaan ker or un kay baray main perh ker dil khush hota hay, or apna khayal aa jaay tu sir nidamat say jhuk jata hay…Allah humain hidayat day…or maslak say deen ki taraf safar main madad farmaay Ameen

Leave A Reply

Your email address will not be published.